احمق بھی جب تک خاموش ہے عقل مند گِنا جاتا ہے۔ جو اپنے لب بند رکھتا ہے ہوشیار ہے۔
امثال کی کتاب ایسی نصیحتوں سے بھری پڑی ہے جس میں زبان کو کنٹرول کرنے کے بارے میں بہت کچھ بیان کیا گیا ہے کیونکہ ہوشیاری میں حکمت ہے۔ کبھی کبھی سب سے عقلمندی کی بات یہ ہوتی ہے کہ کچھ بھی نہ کہا جائے۔ بعض اوقات جن چیزوں کے بارے میں آپ بات کرنے کےلئے اپنے اندر بہت زیادہ قائلیت محسوس کرتے ہیں تو خود سے سوال کریں کہ آپ کو کتنی بات کرنی چاہیے۔ خاموش رہیں اور سُنیں کہ خُدا کیا کہہ رہا ہے۔ جو کچھ وہ آپ سے کہلوانا چاہتا ہے اورجس انداز میں وہ آپ سے کہلوانا چاہتا ہے وہ باتیں کہنے کے بعد آپ کو کبھی پچھتاوا نہیں ہوگا۔
مَیں آپ کی حوصلہ افزائی کرتی ہو کہ مثبت باتوں پرغورکریں اور اُن کے لیے شُکر گزار ہوں۔ اس طرح کرنے سے منفی الفاظ اوررویوں کے لئے دروازہ بند ہو جائے گا۔ جیسا کہ رومیوں 21:12 میں بیان کیا گیا ہے، ہم نیکی سے بُرائی پر قابو پاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں، اگر ہم صحیح کاموں میں مصروف رہیں گے تو غلط کاموں کی کوئی گنجائش نہیں ہوگی۔ لہٰذا اپنا مقصد بنا لیں کہ خُدا کے لئے بھلائی کے کام کریں گے اور اس طرح کرنے سے جو آزادی اور فتح آپ کی زندگی میں آئے گی آپ اس سے لطف اندوز ہوں۔
شُکرگزاری کی دُعا
اَے باپ، مَیں بہت شُکر گزار ہوں کہ جو حکمت تو نے مجھے دی ہے مَیں اس کے ذریعے زندگی گزار سکتا/سکتی ہوں۔ میری مدد کر تاکہ میں یہ جان لوں کہ کب بولنا ہے اور کب خاموش رہنا ہے۔ اگر کوئی ایسی بات چیت ہے جس سے مجھے دُور رہنا چاہیے، مَیں تیرا شُکریہ ادا کرتا/کرتی ہوں کہ تُو میری مدد کرے گا تاکہ میں خود پر قابو پاؤں اور نظم و ضبط اور پرہیز گاری کی زندگی بسر کروں۔