کیا میرا کلام آگ کی مانند نہیں ہے؟ خداوند فرماتا ہے اور ہتھوڑے کی مانند جو چٹان کو (بہت زیادہ ضدی مزاحمت کو) چکنا چور کر ڈالتا ہے؟ (یرمیاہ ۲۳: ۲۹)
جب آپ لفظ ’’اِقرار‘‘ سُنتے ہیں تو آپ زیادہ تر کیا سوچتے ہیں ؟ بہت سے لوگ سب سے پہلے ایسی تفسیر کا سوچتے ہیں جِس کے معنی منفی نکلتے ہیں ـــ اعتراف کرنے پر مجبوُر کیا جانا کہ کہ آپ نے کوئی غلط کام کیا ہے۔ لیکن جب ہم اوُنچی آواز میں اِقرار کر کے خُدا کے کلام سے مُتفق ہوتے ہیں تو نتیجہ ہمیشہ مثبت نکلتا ہے۔
میرا ایک جاننے والا کہتا ہے کہ ہم اپنا مُنہ بند رکھ کر جاتی جولیت کو شکست نہیں دے سکتے۔ جب داؤد جاتی جولیت سے لڑنے کی تیاری کر رہا تھا، وہ اُس کی طرف دوڑ کر اوُنچی آواز میں اِقرار کرتا ہؤا آگے بڑھا جو اُس کے ایمان کےمطابق اِس جنگ کا نتیجہ ہونا تھا : ’’اور آج کے دِن خُداوند تُجھ کو میرے ہاتھ میں کر دیگا…‘‘ (۱ سموئیل ۱۷: ۴۶
یہ ہمارے لئے بہترین مثال ہے کہ ہم اپنی ذاتی زندگیوں میں دشمنوں کا مقابلہ کس طرح سے کریں۔ ضرور ہے کہ ہم اپنا منہ کھولیں اور کلام خدا بولیں۔
میَں آپکی پُر زور طور سے حوصلہ افزائی کرتی ہوُں کہ روزانہ اوُنچی آواز میں خُدا کے کلام کا اِقرار کریں۔ جب بھی آپ کے ذہن میں کوئی ایسا خیال آتا ہے جو خُدا کے کلام سے مُتفق نہیں ہوتا، تو خُدا کے کلام کی سچائی کا اوُنچی آواز میں اِقرار کریں، اور آپ خُدا کے کلام کو جھوُٹ پر غالب آتے ہوۓ دیکھیں گے ۔
یہ دُعا کریں:
اَے خُدا میَں جانتی ہوُں کہ تیرا کلام زورآور ہے… اِس کے آگے کوئی کھڑا نہیں رہ سکتا۔ میَں جب بھی کسی مشکل صوُرتحال میں ہوتی ہوُں، تو مجھے یاد دِلا کہ میَں اوُنچی آواز میں تیرے کلام کا اِقرار کروُں۔