کیا تم ایسے نادان ہو کہ (پاک) رُوح کے طور (اپنی نئی زندگی روحانی طور پر) پر شروع کرکے اَب جسم (اس پر انحصار کرکے) کے طور پر کام پوراکرنا چاہتے ہو؟ گلتیوں 3 : 3
پولس نے گلتیوں سے ایک سوال کیا جو میرے مطابق ایک ایسا سوال ہے جو ہمیں بھی آج اپنے آپ سے پوچھنا چاہیے: کیا ہم مسیح میں رُوح کے مطابق اپنی نئی زندگی شروع کرنے کے بعد اب اُسے جسمانی طور پر گزارنا چاہتے ہیں؟
جس طرح ہم کو فضل (خُدا کی وہ توفیق جس کے ہم حقدار نہیں ہیں) ہی سے اِیمان کے وسیلہ سے نجات ملی ہے اور جسم کے کاموں کے سبب سے نہیں (افسیوں 2 : 8 – 9)، اسی طرح ہمیں ہر روز اِیمان سے خُدا کی قربت کوحاصل کرنا ہے۔ ہمیں ہر روز اس اقرار کے ساتھ زندگی بسر کرنی ہے کہ "اَے خُداوند آج ایک بارپھرمیں تجھ پر تکیہ کرتا/کرتی ہوں، میں اپنی طاقت سے کچھ نہیں کرنا چاہتا/چاہتی بلکہ میں وہ کروں جس کے لئے تو نے مجھے بلایا اور قوت بخشی ہے۔”
جب ہمیں نجات ملتی ہے تواُس وقت ہم اپنی مدد کرنے کی حالت میں نہیں ہوتے۔ اگر ہم اس کے برعکس سوچتے ہیں تو اس کی وجہ غرور اور معرفت کی کمی ہے ۔۔۔۔ ہم آج بھی اپنی مدد کرنے کے قابل ہیں۔ لیکن خُدا کا شکر ہو کہ ہم پورے طور خُدا پر تکیہ کرنے کے لائق ہیں تاکہ جو وہ چاہتا ہے ہم وہ بن سکیں۔ جب تک ہم اُس کو تکتے رہیں گے، اس کے کامل کام پر جو اس نے ہمارے لئے کیا ہے پر بھروسہ کرتے ہوئے، ہم پُرسکون رہ کر اس زندگی سے لطف اندوز ہوسکتے ہیں جسے دینے کے لئے مسیح موا۔
جسم میں زندگی بسر کرنا ۔۔۔۔ اپنی کوشش سے کام کرنا ۔۔۔۔ یہ مایوسی کا باعث ہے۔ لیکن روح میں زندگی بسر کرنا ۔۔۔۔ فرمانبرداری، اعتقاد رکھنا اور خُدا پر تکیہ کرنا ۔۔۔۔ بیان سے باہر شادمانی کا باعث ہے۔ اگلی بار اگر آپ کو مایوسی کا سامنا ہو توذرا رُک کر خود سے سوال کریں کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ جو کچھ آپ کرنا چاہتے ہیں وہ خُدا پر تکیہ کئے بغیر ہے اگر ایسا ہے تو عین ممکن ہے کہ آپ کو اپنی مایوسی کی وجہ معلوم ہوجائے۔
یہ پاک رُوح کی قدرت ہے جو آپ کو توفیق بخشتی ہے کہ آپ مسیح کے وسیلہ سے اپنی نئی زندگی بسر کریں۔