
اس لئے کہ ہم سب کے سب اکثر خطا کرتے ہیں۔ کامل شخص وہ ہے جو باتوں میں خطا نہ کرے (جو کبھی غلط بات نہیں کرتا)۔ وہ سارے بدن کو بھی قابومیں رکھ سکتا ہے۔ یعقوب 3 : 2
اس حوالہ کے مطابق وہ چیز جو ہماری روحانی بلوغت کو ظاہر کرتی ہے وہ یہ نہیں ہے کہ ہم کتنے مذہبی ہیں ۔۔۔۔ ہمیں کتنے حوالے زبانی یاد ہیں، یا ہم کتنے اچھے کام کرتے ہیں ۔۔۔۔ بلکہ وہ گفتگو ہے جو ہم اپنی زبان سے کرتے ہیں۔
یعقوب 1 : 26 میں بیان کیا گیا ہے ‘‘اگر کوئی شخص یہ سوچتا ہے کہ وہ بہت مذہبی ہے( اپنے ایمان کی تمام ظاہر و رسومات کو پرہیزگاری سے ادا کرتا ہے) اور اپنی زبان کو لگام نہیں دیتا تو وہ اپنے دل کو دھوکا دیتا ہے، اس شخص کی مذہبی خدمت بے کار ہے (باطل، بانجھ)’’ (مصنفہ کا خیال شامل کیا گیا ہے)۔
اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ خود کو کتنا مذہبی سمجھتے ہیں آپ کی روحانیت کو ثابت کرنے کے لئے حقیقی امتحان یہ ہے کہ کیا آپ اپنی زبان کو لگام دیتے ہیں یا نہیں۔ مطلب یہ ہے کہ ‘‘باز رہنا یا قابو کرنا۔’’ اگر ہم اپنی زبانوں کو قابو میں نہیں رکھ رہے تو ہم اس بلوغت کو نہیں پہنچ رہے جس کا خُدا ہم سے تقاضا کرتا ہے۔