
تب خُداترسوں نے آپس میں گفتگوکی اورخُداوند نے متوجہ ہو کر سُنا اوراُن کے لئے جو خُداوند سے ڈرتے اوراُسکے نام کویاد کرتے تھے اُس کے حضوری یادگار کا دفتر لکھا گیا۔ (ملاکی ۳ : ۱۶)
آج کی آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ خُدا انسانوں کے درمیان ہونے والی ایسی گفتگوکو پسند کرتا ہے جس میں ہم اُس کی بھلائی کا ذکرکرتے ہیں۔ جب وہ اُن کی باتیں سنتا ہے تو وہ اپنی یادگاری کی کتاب نکالتا ہے اوران باتوں کولکھ لیتا ہے۔ وہ ہماری بڑبڑاہٹ اور شکایت کا ریکارڈ نہیں رکھتا وہ پرستش کے وقت ہمارے منہ سے اَدا ہونے والی باتوں کاریکارڈ رکھتا ہے۔
ذرا سوچیں اگرآپ اپنے بچّوں کو یہ کہتے ہوئے سُنیں کہ ’’ہماری ماں بہت اچھّی ہے۔ ہماری ماں دنیا کی سب سے بہترین ماں ہے۔ کیا ہمارے ماں اورباپ سب سے غیر معمولی لوگ نہیں ہیں؟ وہ سب سے بہترین والدین ہیں!‘‘ مجھے یقین ہے کہ اگر آپ اپنے بچّوں کے درمیان ہونے والی ایسی گفتگو سُنیں گے تو آپ ان کو برکت دینے کے خواہش مند ہوں گے۔
لیکن دوسری طرف، اگرآپ کمرے میں داخل ہوں اوراپنے بچّوں کو یہ کہتے ہوئے سنیں کہ، ’’میں ماں اور بابا سے تنگ ہوں۔ وہ ہمارے لئے کچھ بھی نہیں کرتے۔ اُنہوں نے ہمارےلئے اتنے قانون وقاعدے بنا رکھے ہیں۔ وہ ہمیں کوئی مزہ نہیں کرنے دیتے۔ ماں تو ہمیشہ ہمیں ڈانٹتی رہتی ہیں اور گھر کا کام کرواتی ہے۔ اگر ہمارے ماں باپ کو ہم سےمُحبّت ہوتی تو وہ ہماری خواہشوں کو پورا کرتے اوراپنی مرضی نہ کرتے۔‘‘
مندرجہ بالا جو دو منظر میں نے آپ کے سامنے پیش کئے ہیں خدا کے ساتھ ہماری زندگیاں بھی ان سے کچھ فرق نہیں ہیں۔ ہم خُدا کے فرزند ہیں! جو کچھ ہم کہتے ہیں وہ سُنتا ہے اور ہمارے کچھ بولے بنا ہی وہ جانتا ہے کہ ہمارے دلوں میں کیا ہے ۔ وہ ہمارے لبوں سے کیا سُنناچاہتا ہے؟ اپنی عظمت کے بارے میں! اپنی بڑائی کے بارے میں! ان عجیب کاموں کے بارے میں جو اُس نے کئے ہیں، کرسکتا ہے اورکرےگا! دِل سے خُدا کے بارے میں اچھّا بولیں، اس طرح ایسی فضا جنم لے گی جس میں آپ خُدا کی آواز سُن سکتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج آپ کے لئے خُدا کا کلام: آج ایسی باتیں کریں جن کو سُن کر خُدا خوش ہو۔