
خُداوند کی آس رکھ ۔ مضبوط ہو اور تیرا دِل قوی ہو۔ ہاں خُداوند ہی کی آس رکھ۔ زبور 27 : 14
جب ہم خُداوند پر "آس” رکھتے ہیں، تو اس سے ہم سُست اور نکمے نہیں بن جاتے بلکہ دراصل ہم روحانی طور پر زیادہ فعال ہوجاتے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ ہم کسی "کام” میں مشغول نہ ہوں لیکن ہم خُدا پر بھروسہ کرتے ہیں تاکہ وہ اس کام کوسرانجام دے جو ضروری ہے۔ دراصل ہم یہ کہتے ہیں "اَے خُداوند میں یہ کام اپنی طاقت سے نہیں کروں گا/گی۔ میں تیرا/تیری منتظر رہوں گا/گی کہ تو مجھے چھڑائے۔ اور اس انتظار کے وقت میں میں اپنی زندگی میں خوش رہوں گا/گی۔”
ابلیس چاہتا ہے کہ ہم اپنے مسائل کو خود حل کرنے کی کوشش میں پریشان رہیں۔ وہ ہماری خوشی سے نفرت کرتا ہے۔ بس وہ ہمیں خوش نہیں دیکھنا چاہتا کیونکہ خُداوند کی شادمانی ہماری قوت ہے (نحمیاہ 8 : 10)۔ پریشانی سے ہماری قوت جاتی رہتی ہے لیکن خوشی ہمیں قوت بخشتی ہے۔
ہم یہ سوچنے کی آزمائش میں پڑ سکتے ہیں کہ اگر ہم فکر نہیں کرتے یا اپنے مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو ہم اپنا حصّہ اَدا نہیں کررہے لیکن یہ سوچ ہماری رہائی میں مددگار بننے کے بجائے اس میں رکاوٹ کا باعث ہوگی۔ خُدا کے انتظار میں خوش رہنا اور اس سے توقع کرنا کہ وہی اس کام کو سرانجام دے گا جو ہم نہیں جانتے ہرگز غیر ذمہ داری کی بات نہیں ہے۔
خوف نہ کریں کیونکہ جنگ آپ کی نہیں بلکہ خُداوند کی ہے۔