
سب باتوں کو آزماوٗ [جب تک تم جان نہ لو]۔ جو اچھّی ہو [ اُسے] پکڑے رہو۔ ( ۱ تھسلنیکیوں ۵ : ۲۱)
خُدا کی آواز واضح طور پر سُننے اور کسی بھی قسم کے دھوکے سے بچنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم خُدا کے ساتھ متواتر وقت گزاریں اور اس کے کلام کو سیکھیں۔ اُس کے کلام کو سیکھے بغیر خُدا کی آواز سُننے کی کوشش کرنا ایک غلطی ہے۔ خُدا کے لکھے ہوئے کلام کو جاننا ہمیں دھوکے سے بچاتا ہے۔
خُدا کے کلام کو جانے بغیر اُس کی آواز سُننے کی کوشش کرنا نہایت غیر ذمہ داری اور خطرے کی بات ہے۔ وہ لوگ جو پاک روح کی رہنمائی میں چلنا چاہتے ہیں لیکن سُستی کی وجہ سے دُعا اور خُدا کے کلام کا مطالعہ نہیں کرتے دھوکہ کھا سکتے ہیں کیونکہ بد ارواح ایسےلوگوں کو ڈھونڈتی ہیں جو خُدا کی آواز سُننے کی کوشش میں ہیں تاکہ ان کے کانوں میں پھُسپھائیں۔ ابلیس نے خُداوند یسوع کو بارہا کچھ کہنے کی کوشش کی لیکن اُس نے ہمیشہ جواب میں کہا کہ’’ لکھا ہے‘‘ اور دشمن کے جھوٹ کو رد کرنے کے لئےکلام کا حوالہ دیا کرتا تھا (دیکھیں لوقا ۴)۔
کچھ لوگ صرف اُس وقت خُدا کی تلاش کرتے ہیں جب وہ مصیبت میں ہوں یا اُن کو مدد کی ضرورت ہو۔ لیکن اگر وہ خُدا کی آواز سننے کے عادی نہیں ہیں توشدید ضرورت کے باوجود خُدا کی آواز کو پہچاننا اُن کے لئے مشکل ہوگا۔
ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ جو بھی خیال، تحریک اور سوچ ہمارے دل میں جنم لیتی ہے اُسے خُدا کے کلام کی کسوٹی پر پَرکھیں۔اگر ہم خُدا کے کلام سے ناواقف ہیں تو ہمارے پاس اپنی سوچوں میں سر اُٹھانے والے دلائل اور نظریات کو ماپنے کا کوئی پیمانہ نہیں ہوگا۔ دشمن ہمارے سامنے خوفناک خیالات پیش کرے گا جو ہماری نظر میں ٹھیک ہوں گے۔ اگر ہمیں اپنے خیالات منطقی لگتے ہیں تو اس کا ہرگزیہ مطلب نہیں کہ وہ خُدا کی طرف سے ہیں۔ شاید ہمیں کوئی سُنی ہوئی بات اچھّی لگے، لیکن کسی چیز کے اچھّا لگنے کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ وہ خُدا کی طرف سے ہے۔ شاید کوئی بات جذباتی طور پرہمیں اچھّی لگےلیکن اگر اس کے سبب سے ہمیں اطیمنان نہیں ملتا تو وہ خدا کی طرف سے نہیں ہے۔ خُدا کی ہدایت سے اطمینان جنم لیتا ہے اوراطمینان کو اپنا رہبر(ایمپائر) بنا لیں (دیکھیں کلسیوں ۳ : ۱۵)۔
آج آپ کے لئے خُدا کا کلام: جو کچھ آپ سُنتے ہیں اُسےخدا کے کلام سے پَرکھیں کیونکہ سچائی کو ماپنے کا یہی پیمانہ ہے۔