دوسرے لوگوں کا بوجھ اُٹھانا

دوسرے لوگوں کا بوجھ اُٹھانا

پس میں سب سے پہلے یہ نصیحت کرتا ہوں کہ مُناجاتیں اور دُعائیں اور التجائیں اور شُکر گزاریاں سب آدمیوں کے لئے کی جائیں۔  1 تیمتھیس 2 : 1

مُحبّت اور قبولیت ایسی عالمگیر ضروریات ہیں جو ہر انسان کی ہیں۔ اِن میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو ہماری زندگی کا حصّہ ہیں۔ اگر ہم یہ تقاضا کرتے ہیں کہ لوگ بدل کر ہماری مانند ہوجائیں تو پھر ہم اپنے تعلقات اوراُن پر ایک بڑا بوجھ ڈال دیتے ہیں۔

مجھے وہ سال یاد ہیں جب میں بڑی شدّت سے اپنے شوہر، ڈیو اور اپنے ہر بچّے کے اندرکسی نہ کسی حصہ میں تبدیلی پیدا کرنے کی کوشش میں تھی۔  وہ بڑے پریشان کن سال تھے کیونکہ میں اپنی ہرکوشش میں ناکام ہوجاتی تھی۔ جن لوگوں سے میں مُحبّت کرتی تھی ان کو تبدیل کرنے کی میری ساری کاوشیں ناکام ہوچکی تھیں۔ بلکہ حقیقت میں میں نے معاملات کو اور بگاڑ دیا تھا۔

انسانی طور پر ہم سب کو کچھ سکون اور آزادی کی ضرورت ہوتی ہے یا یہ کہ جس طرح سے ہمیں تخلیق کیا گیا ہے ہم ویسے ہی رہنا چاہتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ جس طرح سے ہم ہیں ہمیں اسی طرح سے قبول کیا جائے۔ ہم خود بھی یہ نہیں چاہتے کہ لوگ ہمیں ذرا سا بھی یہ پیغام دیں کہ اُن کی مُحبّت اور توجہ کو حاصل کرنے کے لئے ہمیں خود کو تبدیل کرنا پڑے گا۔

اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم دوسرے لوگوں کی زندگیوں میں موجود گناہ کو قبول کرنے یا اس سے سمجھوتہ کرنے کے لئے تیارہو جائیں۔ اِس کا مطلب صرف یہ ہے کہ تبدیلی  صرف دُعا سے ممکن ہے  دباؤ سے نہیں۔ اگر ہم لوگوں سے پیار کرتے ہیں اوراُن کے لئے دُعا کرتے ہیں، تو خُدا اپنا کام کرے گا۔ اگر ہم چاہتے کہ تبدیلی دیرپا ہو تو ضرور ہے کہ وہ اندر سے پیدا ہو۔ اور صرف خُدا ہے جو اس قسم کی دِلی تبدیلی کو  پیدا کرسکتا ہے۔


تبدیلی کے لئے بڑبڑانا موثرذریعہ نہیں ہے۔ صرف دُعا اور خُدا کی مُحبّت یہ کام کرسکتی ہے۔

Facebook icon Twitter icon Instagram icon Pinterest icon Google+ icon YouTube icon LinkedIn icon Contact icon