اَے خداوند مبارک(شادمان، خوش قسمت،قابلِ رشک) ہے وہ آدمی جسے تو تنبیہ کرتا اور اپنی شریعت کی تعلیم دیتا ہے۔ تاکہ اس کو مصبیت کے دنوں میں آرام بخشے۔ جب تک شریر کے لئے گڑھا(یقینی) نہ کھودا جائے۔ زبور ۹۴ : ۱۲۔۱۳
جب زندگی اور لوگ ہمیں نااُمید کرتے ہیں تو ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم قائم رہیں اور خدا کےاُس مقصد کو پورا کرتے رہیں جو اُس نے ہماری زندگیوں میں رکھا ہے۔
زبور ۹۴: ۱۲۔ ۱۳ پر غور کریں:انگریزی متن میں اِس آیت کو یوں بیان کیا گیا ہے کہ تو اس کو قوت بخشتا ہے تاکہ مصبیت کے دنو ں میں خود کو پرسکون رکھے یعنی خدا ہمیں قوت بخشے گا تاکہ ہم پرسکون رہ سکیں۔ ہم خدا کے ساتھ کام کرنے والے(شریک) ہیں۔ اس کا حصہ یہ ہے کہ ہمیں قوت بخشے اور ہماراکام یہ ہے کہ ہم ذمہ داری کے ساتھ اس قوت کو استعمال کریں۔
ذمہ داری کے معنیٰ یہ ہیں کہ ’’اپنی قابلیت کے مطابق کام کرنا‘‘۔ایک غیر ذمہ دار شخص چاہتاہے کہ خدا سب کچھ کرے اور وہ صرف اپنے جذبات کی پیروی کرتا ہے۔ لیکن جذبات کو اپنی زندگی کا کنٹرول نہ دیں۔اسی وقت بآوازِ بلند اعلان کریں،’’میں نے خود پر ترس کھانا چھوڑ دیا ہے‘‘۔میں آپ کو یقین دلاتی ہوں کہ اگر آپ ذمہ داری اٹھائیں گے توآپ اپنے بارے میں بہت اچھا محسوس کریں گے جب کہ اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو اس کے متضاد ہوگا۔
خدا آپ کی فکر کرتاہے لیکن وہ آپ کے حصہ کا کام نہیں کرے گا۔ وہ آپ کو کام کرنے کی توفیق دے گا لیکن میں ایک بار پھر اس بات پر زور دوں گی کہ وہ آپ کے حصہ کا کام نہیں کرے گا۔ میں آپ کی ہمت بندھاتی ہوں کہ ذمہ داری کا مظاہرہ کریں اورخد اکے ساتھ کام شروع کریں تاکہ اس بابرکت زندگی کو حاصل کریں جس کا اس نے آپ کے لئے منصوبہ بنایا ہے۔
یہ دُعا کریں:
اَے خدا تیرا کلام فرماتا ہے کہ تونے مجھے قوت دی ہے تاکہ میں پُرسکون رہ سکوں۔آج میں اس کو لے لیتا /لیتی ہوں۔ میں اپنے جذبات کے دباوٗ میں زندگی بسر نہیں کروں گا/گی۔ بلکہ ذمہ داری کے ساتھ برتاوٗ کروں گا/گی تاکہ تیری مرضی کے مطابق زندگی بسر کروں۔