اور دُعا کرتے وقت غیر قوموں کے لوگوں کی طرح بَک بَک (زیادہ الفاظ کا استعمال کرنا، ایک ہی بات کو بار بار دہرانا) نہ کرو کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے بہت بولنے کے سبب سے ہماری سُنی جائے گی۔ متّی 6 : 7
بہت سالوں تک میں اپنی دُعا سے غیر مطمئن رہی۔ میں ہر صبح دُعا کیا کرتی تھی لیکن مجھے ہمیشہ کسی کمی کا احساس رہتا تھا۔ آخرکار میں نے خُدا سے سوال کیا کہ اس کی کیا وجہ ہے، اور اُس نے میرے دِل میں مجھ سے کلام کیا کہ، "جائیس تم خود اپنی دُعاؤں کو سمجھتی ہو کہ جتنی اچھی ہونی چاھئیے ا تنی اچھی نہیں ہیں۔” مجھے دُعا کرنے میں اِس لئے مزا نہیں آرہا تھا کیونکہ مجھے بالکل بھی یقین نہیں تھا کہ میری دُعائیں قابلِ قبول ہیں۔
بہت دفعہ دُعا کے تعلق سے ہم اپنے بنائے ہوئے معیار میں پھنس جاتے ہیں۔ بہت دفعہ ہم کوشش کرتے ہیں کہ ہماری دُعا بہت لمبی ہو، یا ہم بُلند آواز اور خوبصورت الفاظ میں دُعا کریں اور ہم اس حقیقت کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ دُعا تو صرف خُدا سے گفتگو کرنے کا نام ہے۔ مسئلہ دُعا کی لمبائی، اُونچائی یا خوبصورتی نہیں ہے۔ دُعا کے اہم جزومیں ہمارے دِل کی سچائی اور یہ ایمان شامل ہے کہ خُدا ہماری دُعا کو سنے گا اور ضرور جواب دے گا۔
اگر ہم صرف یہ کہہ دیں گے کہ "اَے خُدا میری مدد کر” تو ہمیں یقین ہونا چاہیے کہ وہ سنے گا اور جواب دے گا۔ ہم خُدا پر بھروسہ کرسکتے ہیں کہ وہ وفادار ہے اور جو ہم نے اُس سے مانگا ہے وہ عطا کرے گا، اگر ہماری درخواست خُدا کے کلام کے مطابق ہے۔
سادہ، اِیمان سے پر دُعائیں دِل سے نکلتی ہیں اور خُدا کے دِل تک رسائی حاصل کرتی ہیں۔