جس کسی کے پاس دُنیا کا مال (زندگی گزارنے کے ذرائع) ہو اور وہ اپنے بھائی کو محتاج دیکھ کر رحم کرنے میں دریغ کرے تو اُس میں خُدا کی مُحبّت کیوں کر قائم رہ سکتی ہے۔ اَے بچّو! ہم (صرف) کلام اور زبان ہی سے نہیں بلکہ کام اور سچائی کے ذریعہ سے بھی مُحبّت کریں (عمل اور سنجیدگی سے)۔ 1 یُوحنّا 3 : 17 – 18
فوری برکت پانے کا طریقہ یہ ہے کہ ہم دوسروں کے لئے باعثِ برکت بننے کا اِرادہ کریں۔ جب آپ سخاوت کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں یعنی اپنے اِرد گرد لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو پھر خُدا بھی آپ کی زندگی کی ضروریات کو پورا کرتا ہے۔ وہ شخص جو برکت کا دریا ہے وہ کبھی بھی خشک نہیں ہوسکتا۔
ہر اِیماندار کے دِل کی گہرائی میں یہ خواہش موجود ہے کہ وہ دوسروں کی مدد کرنا چاہتا ہے۔ لیکن بعض اوقات خود غرضی ہمیں اپنی ہی خواہشات کو پورا کرنے کے چکر میں ایسا مگن کردیتی ہے کہ ہم اپنے اِرد گرد رہنے والوں کی ضروریات سے غافل ہوجاتے ہیں۔
لوگ ہر طرف تکلیف اُٹھا رہے ہیں۔ کچھ لوگ غریب ہیں، کچھ بیمار اور تنہا ہیں۔ کچھ جذباتی طور پر زخمی ہیں، کچھ لوگوں کی روحانی ضروریات ہیں۔ کسی دُکھی شخص کے لئے کی گئی معمولی سی مہربانی بھی اسے یہ احساس دلانے کے لئے کافی ہے کہ اُس سے پیار کیا گیا ہے اور اس کی قدر کی گئی ہے۔
انسان زیادہ سے زیادہ حاصل کرنے کی جستجو میں پھنس سکتے ہیں۔ اس کوشش سے یا تو بہت کم یا کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ خُدا کی مدد سے ہم دوسروں کو دینے میں ماہر ہوسکتے ہیں۔ اگر ہم ایسا کریں گے تو ہم جان لیں گے کہ خُدا بھی اس بات کو یقینی بنائے گا کہ نہ صرف ہماری تمام ضرورتیں پوری ہوں گئیں بلکہ ہمارے پاس دینے کے لئے بہت کچھ ہو۔
ضرورت مندوں کی ضرورت کے وقت ان کی مدد کرنا سب سے عظیم برکت ہے۔