
کیونکہ …دوسرے کو اُسی [پاک] رُوح کی مرضی کے موافق عملیت کا کلام [اظہار کی قوت]عنایت ہوتا ہے۔ (۱ کرنتھیوں ۱۲ : ۸)
علمیت کا کلام تقریباً اُسی طرح سے کام کرتا ہے جس طرح کہ حکمت کا کلام۔ علمیت کے کلام کی بہت سے تفسیریں ہیں لیکن زیادہ تر اِس بات پر متفق ہیں کہ جب خُدا مخصوص حالات کے تعلق سے کسی فردِ واحد پر اپنا مںصوبہ ظاہر کرتا ہے اورجس شخص کو یہ مکاشفہ حاصل ہوتا ہے وہ اُسے فطری طور پر جاننے1 کی قابلیت نہیں رکھتا تو یہ علمیت کا کلام ہے۔
بعض اوقات جب خُدا ہم سے بات کرتا ہے اور ہمیں دوسرے لوگوں کے تعلق سے علمیت کا کلام عنایت کرتا ہے توہم جان جاتے ہیں کہ اُن کی زندگی میں کوئی مسئلہ ہے یا یہ کہ اُنہیں اپنے مخصوص حالات میں کچھ مخصوص اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ مافوق الفطرت علم ہے اورہمیں اسے کسی پر تھوپنا نہیں چاہیے۔ بلکہ ہمیں حلیمی سے اُنہیں بتانا چاہیے اورخُدا ہی کو موقع دینا چاہیے کہ وہ قائل کرے۔ بعض اوقات تو خُدا صرف یہ چاہتا ہے کہ ہم اُس شخص کے لئے دُعا کریں۔
علمیت کا کلام خدمت کے دوران ایک مددگار اوزار کےطور پر کام کرتا ہے تاکہ ہم دوسروں کی مدد کریں اور یہ ہماری شخصی زندگی کے لئے بھی بہت کارآمد ہے۔ مثال کے طورپر یہ نعمت میری زندگی میں اس وقت کثرت سے کام کرتی ہے جب مجھ سے کوئی چیز گم ہو جاتی ہے یا میں اسے کہیں رکھ کر بھول جاتی ہوں۔ جب وہ چیزجسےمیں ڈھوںڈ رہی ہوتی ہوں مجھے کہیں بھی نہیں ملتی تو اچانک پاک رُوح میرے ذہن میں مجھے ایک تصور بخش دیتا ہے، یا اس چیز کی جگہ کے تعلق سے کوئی خیال یا کوئی لفظ بتا دیتا ہے ۔ علمیت کے کلام کی یہ ایک بہت ہی عملی مثال ہے کیونکہ فطری طورپرمیں ان باتوں کے بارے میں کبھی بھی جان نہیں سکتی اور اِسی طریقہ سے علمیت کا کلام آپ کی زندگی میں بھی کام کرسکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج آپ کے لئے خُدا کا کلام:
تعلیم اچھّی ہے لیکن خُدا کا علم اس سے بھی بہتر ہے پس اُس پر انحصار کریں۔
1 سٹینلے ایم. برجیس اینڈ گیری بی. میکگی، ایڈز، پینٹیکاسٹل اور کیرزمیٹک تحریک کی ڈکشنری (گرینڈ ریپڈز، ایم آئی: زونڈروان، ۱۹۸۸)، ۵۲۷ ۔ ۲۸۔