تم سُن چکے ہو کہ میں نے تم سے کہا کہ جاتا ہوں اور تمہارے پاس پھر(واپس) آتا ہوں۔ اگر تم مجھ سے مُحبّت رکھتے تو اس بات سے کہ میں باپ کے پاس جاتا ہوں (حقیقی طور پر)خوش ہوتے کیونکہ باپ مجھ سے بڑا ہے۔ یُوحنّا 14 : 28
خُداوند یسوع مسیح کو ہر وقت مخالف حالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا اور اگرچہ وہ اپنے حالات کے بارے میں گفتگو کرتا تھا لیکن وہ کبھی بھی منفی انداز میں بات نہیں کرتا تھا۔ یُوحنّا کی اِنجیل میں اُس نے اپنے شاگردوں سے کہا کہ وہ جاتا ہے اور انہیں اس کے لئے خوش ہونا ہے کیونکہ یہ اس کے لئے خُدا کی مرضی کے مطابق ہے اور پھر اس نے یہ بھی کہا کہ وہ ان سے بہت سے باتیں نہیں .کرے گا (یُوحنّا 14 : 28 ۔ 31)
خُداوند یسوع مسیح کو معلوم تھا کہ کس وقت بات کرنی چاہیے اور کب بات نہیں کرنی چاہیے اور کس طرح بات کرنی چاہیے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ وہ الفاظ کی طاقت اور اثر سے واقف تھا۔ مجھے یقین ہے کہ جب خُداوند یسوع مسیح نے کم بولنے کا فیصلہ کیا تو وہ چاہتا تھا کہ جو کچھ وہ کہے گا وہ صیح بات ہونی چاہے جس سے اُسے خُدا کے کامل منصوبے کو پایہٗ تکمیل تک پہنچانے میں مدد ملے۔
آج کا قوّی خیال:
جب میں اپنے حالات کے بارے میں بات کروں گا/گی تو میں مثبت انداز سے بات کروں گا/گی۔