پاک رُوح ہماری رُوح کے ساتھ کلام کرتا ہے

اور وہ آ کر دنیا کو گناہ اور راستبازی (دِل کی پاکیزگی اور خُدا کے ساتھ درست تعلق) اورعدالت کے بارے میں قصوروار ٹھہرائے گا(یُوحنّا ۱۶ : ۸)

پاک رُوح ہماری رُوحوں کے ساتھ بات کرتا ہے تاکہ ہمیں ہمارے گناہوں کے لئے قصوروارٹھرائے اور راستبازی کے لئے قائل کرے۔ وہ ہمیں اِس لئے قصوروار ٹھہراتا ہے تاکہ ہمیں توبہ کے لئے تیار کرے، جس کا مطلب ہے اُس غلط راہ سے مڑ کردرست راہ پر چلنا جس پر ہم چل رہے ہیں۔

قصور وار ٹھہرایا جانا مجرم ٹھہرانے سے بالکل مختلف ہے۔ میں نے یہ بات بہت دیر سے سیکھی کہ جب پاک رُوح مجھے کسی ایسی بات کے لئے قصوروار ٹھہراتا ہے جو خُدا کی مرضی کے خلاف ہے تو وہ مجھے مجرم نہیں ٹھہراتا۔ قصوروار ٹھہرائے جانے کا مقصد ہمیں کسی معاملہ سے نکالنا  اور خدا کی مرضی اور منصوبہ میں آگے بڑھانا ہوتا ہے۔ دوسری طرف اگر ہم مجرم ٹھہرائے جاتے ہیں تواس کا مقصد ہمیں جھکانا اور ندامت کے بوجھ تلے دبانا ہے۔

گناہ کے بارے میں قائل ہونے کے بعد مناسب شرمندگی یا ندامت محسوس کرنا جائز ہے۔ لیکن اُس گناہ سے توبہ کرنے کے باوجود ندامت محسوس کرتے رہنا ٹھیک نہیں ہے اور نہ ہی یہ خُدا کی مرضی ہے۔ عین زِنا کے فعل میں پکڑی جانے والی خاتون کے واقع میں (دیکھیں یُوحنّا ۸ : ۳ ۔ ۱۱)، خُداوند یسوع نے یہ ثابت کردیا کہ جب کسی شخص کو مجرم قراد دے دیا جاتا ہے تو یہ اس کو موت تک لے جاتا ہے لیکن قائلیت گناہ سے چھڑا کر ہمیں نئی زندگی میں لے جاتی ہے۔

چونکہ خُدا ہمیں مجرم نہیں ٹھہراتا ہم بےخوفی سے دُعا کرسکتے ہیں: ’’اَے خُداوند میرے گناہ مجھ پر ظاہر کر۔ اگر میں تیرے محبت کے قاعدہ کو توڑ رہا/رہی ہوں یا تیری مرضی کو پورا نہیں کررہا/رہی تو مجھے قائلیت بخش دے۔ اپنی آواز سننے کے لئے میرے ضمیر کو جگا۔ گناہ سے آزاد ہونے کے لئے مجھے قوت بخش دے۔ آمین۔‘‘ اِس طرح ہم اپنی زندگیوں میں خُدا کی آواز کے لئے  زیادہ حساس ہوجائیں گے ۔


آج آپ کے لئے خُدا کا کلام:  ابلیس مجرم ٹھہراتا ہے اور پاک رُوح قائل کرتا ہے۔

Facebook icon Twitter icon Instagram icon Pinterest icon Google+ icon YouTube icon LinkedIn icon Contact icon