
اے خدا تو میرا خدا ہے۔ میں دل سے تیرا طالب ہوں گا…( زبور ۶۳ : ۱)
بہت دفعہ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہم ایک لمبے عرصہ تک مخصوص حالات میں جدوجہد کرتے رہتے ہیں اورآخرکارہمیں خیال آتا ہے کہ کیوں نہ اس بارے میں خدا سے بات کی جائے اوراُس کی آواز سُنی جائے۔ ہم اپنے مسائل کے بارے میں شکایت کرتے ہیں؛ بڑبڑاتے ہیں؛ فسفساتے ہیں؛ ہم اپنے دوستوں کو بتاتے ہیں؛ اور ہم کہتے ہیں کہ کاش خُدا ہمارے لئے کچھ کرے۔ ہم اپنے دماغ اور جذبات میں ان حالات کے تعلق سے کشمکش کا شکار رہتے ہیں جب کہ اکثر ہم اپنے حالات کےسادہ ترین حل کا فائدہ اُٹھانے میں ناکام رہتے ہیں یعنیٰ: دعا۔ لیکن سب سے بُری بات یہ ہے کہ ہم اس طرح کی احمقانہ بات کرتے ہیں: ’’میرا خیال ہے کہ میں صرف دُعا ہی کرسکتا/سکتی ہوں۔‘‘مجھے یقین ہے کہ آپ نے نہ صرف یہ سُنا ہوگا بلکہ ایسا کہابھی ہو گا۔ ہم سب نےایسا کہا ہے۔ ہم سب دُعا کو آخری حربہ کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور اس طرح کی باتیں کرتے ہیں، ’’کچھ بَن نہیں پڑ رہا شاید مجھے دُعا کرنی چاہیے۔‘‘ کیا آپ جانتے ہیں کہ میں اس سے کیا اخذ کرتی ہوں؟میں سمجھتی ہوں کہ جتنا ہمارا دُعا کی قوت پر ایمان ہونا چاہیے اتنا ہم اس پرایمان نہیں رکھتے۔ ہم ایسے بوجھ اُٹھائے پھرتے ہیں جوہمیں اُٹھانے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔ اور ہماری زندگی ضرورت سے بے انتہا زیادہ مشکل ہو جاتی ہے کیونکہ ہم یہ نہیں جانتے کہ دُعا کس قدر طاقت ور ہے۔اگر ہمیں اس بات کا یقین ہوتا توہم خدا سے بات کرتے اور ہر بات میں اس کی صلاح لیتے،آخری حربہ کے طور پر نہیں بلکہ پہلے جواب کے طور پر۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج آپ کے لئے خُدا کا کلام:
دعا آپ کا پہلا جواب ہونا چاہیے نہ کہ آخری حربہ۔