
اُسی طرح میرا کلام جو میرے مُنہ سے نِکلتا ہے ہو گا۔ وہ بے انجام میرے پاس واپس نہ آئے گا بلکہ جو کُچھ میری خواہِش ہو گی وہ اُسے پُورا کرے گا اور اُس کام میں جِس کے لِئے مَیں نے اُسے بھیجا مُوثّرِ ہو گا۔ یسعیاہ 55 : 11
چونکہ ہم سب کی رائے مختلف ہے اس لئے یہ دلچسپی کی حامل بھی ہوسکتی ہے۔ آپ کو ذاتی رائے رکھنے کا پوراحق حاصل ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اسے بانٹتے پھریں۔ اکثر لوگ ہماری رائے سننا نہیں چاہتے؛ اوراگر کوئی ہماری رائے مانگتا ہے تو دراصل وہ اُمید کرتا ہے کہ ہم ان کی اس رائے سے اتفاق کریں جو وہ پہلے ہی تشکیل دے چُکے ہیں۔ حکمت سے ہم یہ سمجھ جائیں گے کہ کب خاموش رہنا ہے اور کب بات کرنی ہے۔
ہمیں اس بات کا امتیاز ہونا چاہیے کہ کس وقت ہمیں رائے دینی ہے اور کس وقت نہیں دینی اوریہ دھیان بھی رکھنا ہے کہ جو بات سب لوگوں کے درمیان مقبول ہے وہ ہماری رائے نہ بن جائے محض اس لئے کہ سب اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ شُکر ہے کہ ہم خُدا کی سچائیوں سے واقف ہیں کیونکہ ان کے وسیلہ سے ہماری رائے تشکیل ہوتی ہے۔ اگر ہم اپنی سوچ اور آراء کی بنیاد خُدا کے لا تبدیل کلام پر رکھیں تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے کہ معاشرہ کیا کہتا ہے یا کون سی بات مقبولِ عام ہے؛ خُدا آپ کو اَجر دے گا کیونکہ اُس کا کلام کبھی باطل نہیں ہوتا۔
شُکرگزاری کی دُعا
اَے باپ میں تیرے الہامی کلام کے لئے تیرا شُکریہ ادا کرتا/کرتی ہوں جو مجھے سچائی سے واقف کرتا ہے تاکہ میں اس کو اپنے خیالات، سوچوں اور رائے کی بنیاد بناؤں۔ میری مدد فرما تاکہ میں سچائی اور لاتبدیل باتوں اور موجودہ وقت کی مقبول باتوں میں امیتاز کرسکوں۔ انشمندانہ اور حوصلہ افزا رائے پیدا کرنے میں میری مدد کر۔