کِیُونکہ جو قَول خُدا کی طرف سے ہے وہ ہرگز بے تاثِیر نہ ہوگا۔ لوقا ۱: ۳۷
جو لوگ مثبت انداز سے سوچتے ہیں وہ ہر طرح کی حوصلہ شِکن صورتحال میں بھی ممکنہ حل نکال لیتے ہیں، جبکہ جو منفی سوچ رکھتے ہیں فوراً ہی مسائل اور پابندیوں کی نشاندہی کرنے لگتے ہیں۔
یہ اُس مثالی خیال سے بھی بڑھ کر ہے کہ گلاس میں پانی’’آدھا بھرا ‘‘ہوا ہے یا ’’آدھا خالی ‘‘ہے جس کا اندازہ کرنا مشکل ہوتا ہے کہ یہ مثبت سوچ ہے یا منفی سوچ ہے۔
کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ منفی سوچ کس طرح چیزوں کا تناسب بگاڑ دیتی ہیں ؟ اور مسائل بظاہر بڑھتے ہوُۓ اور پہلے سے زیادہ مشکل لگنے لگتے ہیں۔
بعض اوقات کوئی مسٔلہ اِتنا زیادہ ناممکن لگنے لگتا ہےجتنا ہوتا نہیں ہے۔ اور ایک منفی ذہنیت اکثر بھُلا دیتی ہے کہ خُدا کے آگے کچھ بھی ناممکن نہیں۔
خُدا کا کلام پڑھنا آپکو منفی سوچ سے چھٹکارا اور خُدا پر توجہ مرکوز کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔ ایک مثبت ذہنیت جس کی بنیاد خُدا کے کلام پر ہو، جانتی ہے کہ خُدا سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ وہ ہر وقت موجود ہوتا ہے۔
میَں نے اپنے دماغ کو خُدا اور اُس کے کلام پر ایمان رکھنے کی تربیت کی ہےاور جب میَں نے اپنے حالات سے بڑھ کر اُس پر بھروسہ کیا تو مجھےاُس قوت کا تجربہ ہوا تھا جو خُدا کے ذریعہ سے ہمیں دستیاب ہوتی ہے۔ ہمیں ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ خُدا کے لئےکچھ بھی ناممکن نہیں۔
یہ دُعا کریں:
اَے خُدا مجھ پر واضح ہو چکا ہے کہ’’ آدھے خالی گلاس ‘‘ والی ذہنیت سے مجھے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ ناممکن صورتحال میں بھی، میَں جانتی ہوں کہ تو میرے ساتھ ہے۔ تیرے کلام میں رہتے ہوۓ میں چیزوں کو مثبت طور سے دیکھنے کا فیصلہ کرتی ہوں۔