خُداوند کی آس رکھ۔ مضبوط ہو اور تیرا دِل قوی ہو۔ ہاں خُداوند ہی کی آس رکھ ۔ زبور 27 : 14
میں سمجھتی ہوں کہ الفاظ روحانی عالم میں داخل ہو کر اُن کو حقیقت کا روپ دینے کا ذریعہ ہیں۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص مسلسل یہ کہتا رہتا ہے کہ ‘‘مجھے ڈر ہے کہ میری نوکری ختم ہو جائے گی۔’’ تو اس شخص کے رویہ کو دیکھ کر کوئی بھی مالک اس کو اپنے ادارے میں رکھنا پسند نہیں کرے گا۔ منفی الفاظ ہمارے اندر ایسا رویہ پیدا کرتے ہیں کہ ہم خود کے بارے میں منفی سوچنا شروع کردیتے ہیں اور پھر ہم اس طرح سے برتاؤ کرنا شروع کردیتے ہیں کہ دوسرے بھی ہمارے بارے میں ایسا ہی محسوس کرنے لگتے ہیں جیسا کہ ہم اپنے بارے میں کرتے ہیں۔
شُکرگزاری کی بات ہے کہ ہم مثبت انداز سے، زندگی سے بھرپورگفتگو کرسکتے ہیں اور اس کے نتائج بھی دیکھ سکتے ہیں۔ مثال کے طور پراگر کوئی شخص مسلسل یہی کہتا رہے کہ ‘‘خُدا مجھے برکت دینا چاہتا ہے اور مجھے بہترین زندگی سے لطف اندوز ہوتے ہوئے دیکھنا چاہتا ہے،’’تو وہ شخص خُدا کو اپنی زندگی میں کام کرتے ہوئے دیکھے گا۔ اگر ہم اپنے دِل میں خاموشی سے یا زبان سے کوئی بات بار بار کرتے ہیں، ہمیں اس کا یقین ہونا شروع ہوجائے گا۔ بائبل ہمیں سیکھاتی ہے کہ ہم جس بات کا یقین کرتے ہیں وہ ہمیں مِل جاتی ہے، خُدا کے سارے وعدے اس وقت پورے ہوتے ہیں جب ہم اُن پر اِیمان لاتے ہیں۔ دراصل یقین کرنے کا مطلب ہے ‘‘حاصل کرنا’’ اور ‘‘حاصل کرنے’’ کا مطلب ہے ‘‘یقین کرنا’’۔ یقین کرنے اور حاصل کرنے کے عمل کو ہم جُدا نہیں کرسکتے۔ جو کچھ ہم یقین کرتے ہیں وہ ہمارے لئے حقیقت بن جاتی ہے!