
[پاک] رُوح کو نہ بجھاوٗ (دبانا یا قابو کرنا) ۔ (۱ تھسلنیکیوں ۵ : ۱۹)
آج کی آیت ہمیں بتاتی ہے کہ پاک روح کو نہ بجھاوٗ۔ مجھے یقین ہے کہ شکایت کرنا رُوح کو بجھانے کا ایک سبب ہے۔ ہمیں پاک رُوح کی ضرورت ہے تاکہ وہ ہماری زندگیوں میں کام کرے اور جتنا ہم شکایت کرنا کم کریں گےاورشُکرگزار(شکایت کا متضاد) ہوں گے، پاک روح کو ہمارے حالات میں کام کرنے کا اتنا ہی موقع ملے گا۔ شکایت کرنا فطری عمل ہے؛ لیکن زندگی کے حالات میں آزمایش اور امتحان کے بیچ میں شُکرگزاری کرنا مافوق الفطرت عمل ہے۔
وہ لوگ جو شکایت کرتے اور بڑبڑاتے ہیں خُدا کی نہیں سُنتے کیونکہ اُس کی سُننے کے لئے اُنہیں شکایت کو چھوڑنا پڑے گا! اس سچائی کو جاننے میں مجھے کئی سال لگ گئے! میں شکایت کرتی تھی، بڑبڑاتی اور پھسپھساتی تھی اور ہر چیز اور ہر شخص میں غلطیاں نکالتی تھی اور پھر حسد کرتی تھی کیونکہ میرے اِرد گرد تمام لوگ خُدا کی آواز سنُتے تھے اورمیں نہیں!
’’میرے ساتھ کچھ اچھّا کیوں نہیں ہوتا؟‘‘ میں کراہتی تھی۔
ڈیو مجھے بتاتے رہتے تھے، ’’جائیس ہماری زندگی میں اس وقت تک بھلائی پیدا نہیں ہوسکتی جب تک تم مخالف اورناپسندیدہ حالات کے لئے پریشان ہونا بند نہیں کروگی ۔‘‘
جب وہ مجھے یہ بات کہتے تو میں اُن سے ناراض ہوجاتی تھی اور ان کو پلٹ کر یوں جواب دیتی تھی: ’’تمھیں میرے احساسات کی کوئی فکر اور پرواہ نہیں ہے!‘‘
مسئلہ یہ تھا کہ میں خُدا کے اُن وعدوں پرغور نہیں کرتی تھی جو میری مدد کے لئے تھے بلکہ میں اپنے احساسات کی زیادہ پرواہ کرتی تھی ۔ اگر ہم صبر(اچھے رویہ کو برقرار رکھیں) کریں تو خُدا مصیبت میں ہماری مدد کے لئے تیار رہتا ہے اور آزمائش سے نکلنے کی راہ بھی دکھاتا ہے۔ شکایت کرنا صبر کا نشان نہیں ہے لیکن شُکر گزاری اور قدرکرنا صبر کا رویہ ہے۔ جب میں نے اپنے احساسات کے بجائے خُدا کے کلام کے مطابق زندگی گزارنا سیکھ لیا اپنے تو میں نے خُدا کی آواز کو زیادہ واضح طور پر سُننا شروع کردیا۔ شکایت دشمن کے لئےاور شُکرگزاری اور قدر کرنا خُدا کے لئےدروازے کھول دیتی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج آپ کے لئے خُدا کا کلام:
شکایت کے سبب سے پاک روح کو نہ بجھاوٗ۔