ہم کس طرح اپنی (حقیقی) شخصیت کے مطابق زندگی بسر کریں

از جوائیس مائیر

میں آپ سے ایک سوال پوچھنا چاہتی ہوں: کیا آپ خود سے پیار کرتے ہیں؟ یہاں میں خود غرضی یا خود پسندی کی بات نہیں کر رہی، یہاں میں یہ کہہ رہی ہوں کہ کیا آپ اپنی ہستی سے پیار کرتے ہیں جو یکتا (منفرد، لاثانی) ہے اور جِسے خُدا نے تخلیق کیا ہے۔

اس بات پر تھوڑی دیر کے لئے غور کریں۔ آپ اپنی زندگی میں ایک لمحہ کے لئے بھی خود سے الگ نہیں ہوتے۔  جس کے ساتھ آپ ہر وقت موجود ہوتے ہیں ـــ تو آپ کو تمام زندگی مصیبت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ لیکن اگر آپ اپنی ذات سے پیار کرتے ہیں تو آپ زندگی سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔

اپنی ذات سے پیار کرنے کا مطلب ہے خُدا کی غیر مشروط مُحبت کو اپنے پورے دِل سے قبول کرنا، اُسی نگاہ سے خود کو دیکھنا جس سے خُدا آپ کو دیکھتا ہے اور اُس نے آپ کو جیسا بھی بنایا ہے اُس سے خوش اور مطمئین ہونا: برگزیدہ ، شاہی، پاک اور خاص (دیکھیں 1 پطرس 2 : 9)۔ اپنی ذات سے صحتمندانہ مُحبّت کا انحصار ہمارے صحیح یا غلط کاموں پر نہیں ہے، بلکہ اس حیثیت پر ہے جو خُدا کے فرزند ہونے کی وجہ سے ہمیں ملی ہے۔ جب آپ مسیح میں اپنی حیثیت سے لاعلم ہوں گے، تو آپ اپنی ذات کو پہچاننے اور اس سے مسیح کی مانند پیار کرنے کے قابل نہیں ہوں گے اور یہاں تک کہ اپنی اصلی شخصیت کے مطابق نہیں ڈھل سکتے۔ اس کی بجائے آپ لوگوں کی آراء کے مطابق کام کرنے کی کوشش کریں گے اور ہمیشہ کمتری اور خودترسی کا شکار رہیں گے اور ہمیشہ یہ خواہش کریں گے کہ کاش آپ کسی اور کی مانند ہوتے۔

پُرسکون رہیں اور جیسے آپ ہیں ویسے ہی رہیں

 بہت عرصہ تک میں دوسروں کی مانند بننے کی کوشش کرتی رہی یہاں تک کہ میں نے خود کو کہیں کھو دیا۔ میں اس گھناؤنے چکر میں پھنس کر رہ گئی اور میں آپ کو بتانا چاہتی ہوں کہ یہ زندگی گزارنے کا اچھّا طریقہ نہیں ہے۔

کیونکہ میرے والد نے مجھے جنسی استحصال کا نشانہ بنایا، اسی سبب سے میں ہمیشہ یہ محسوس کرتی تھی کہ میرے ساتھ کوئی مسئلہ ہے۔ یہ منفی احساس مجھے مجبور کرتا تھا کہ میں دوسرے لوگوں کی مانند بنوں جن کو میں پسند کرتی تھی یا یہ سوچتی تھی کہ مجھے اُن کی مانند بننا "چاہیے۔” میں اپنے شوہر کی مانند بننے کی کوشش کرتی تھی، جو بالکل میرے متضاد تھے۔ میں اپنے پاسبان کی بیوی کی طرح بننے کی کوشش کرتی تھی اور وہ بھی میری شخصیت سے بالکل متضاد تھی۔ اور میں اپنی ایک دوست کی طرح بننا چاہتی تھی جس کے اندر ایسی خوبیاں تھیں جو میرے اندر نہیں تھیں۔

اور اگر میں کوئی کام کر رہی ہوتی اور کوئی مجھے محض یہ مشورہ دیتا کہ میں جو کچھ کر رہی ہوں اس کو کسی اور طریقہ سے کروں تو چاہے وہ مجھے دبانے کی کوشش نہ بھی کر رہا ہوتا میں اپنے کام کے انداز کو بدلنے کے دباؤ میں آ جاتی تھی کیونکہ یہی خیال کہ اگلا شخص میرے کام کے انداز کا حامی نہیں مجھے پریشانی میں مبتلا کرنے کے لئے کافی ہوتا۔

بہت سال بعد جب میری شادی ہو گئی اور خُدا نے مجھے اولاد بخشی تو میری ایک اچھّی دوست میرے گھر پر آئی اور وہ اکثر میرے گھر پر آتی تھی۔ کبھی کبھار جب میں کپڑے استری کر رہی ہوتی تھی وہ میرے پاس بیٹھ جاتی تھی (جی ہاں پہلے لوگ اپنے سب کپڑے استری کیا کرتے تھے)۔ ایک دِن اُس نے مجھ سے سوال کیا، "تم قمیص کے کالر سے استری کیوں شروع کرتی ہو؟ میں تو ہمیشہ قمیص کے نچلے حصّہ سے استری کرنا شروع کرتی ہوں۔”

میری دوست نے محض ایک بات کر دی تھی، لیکن اس دن کے بعد وہ جب بھی میرے گھر پر ہوتی اور میں استری کر رہی ہوتی، تو میں قمیص کے نچلے حصہ سے استری کرنا شروع کرتی تھی۔ میرا خیال تھا کہ اُسے خوش کرنے کے لئے میرے لئے ایسا کرنا ضروری تھا۔ بجائے اس کے کہ میں اس طریقہ سے استری کرتی جو مجھے آسان محسوس ہوتا تھا۔ مضحکہ خیز بات یہ تھی کہ شاید اس نے کبھی میرے استری کے انداز پر غور بھی نہیں کیا تھا، پس میری ساری کوشش بےکار تھی۔

مسیحی کی حیثیت سے میں نے بہت سے سال دوسروں کو خوش کرنے کی کوشش اور اضطراب میں گزار دیئے اور ناکام رہی جب تک کہ خُداوند نے مجھ پر میرے  مسئلہ کو ظاہر نہ کر دیا جو یہ تھا کہ میں نے کبھی بھی اُس کی مُحبّت کو قبول نہیں کیا تھا۔

جب میں نے اِس مکاشفہ کو جان لیا تو میں نے ایک سال تک خُدا کی مُحبّت کو سیکھنے، اس پر غور و خوص کرنے، اور اس کا باآوازِ اِقرار کرنے میں گزارا۔ اس سے پہلے میں چالیس سال تک خود کو ناپسند کرتی رہی تھی، جب میں نے خود کو پسند کرنا شروع کر دیا تو یہی اس قدر قابلِ تجدید تھا کہ میری سوچوں کو تبدیل ہونے میں کافی وقت لگ گیا۔ پہلے پہل مجھے خود سے پیار کرنے میں احساسِ ندامت ہوتا تھا کیونکہ میں اپنی خامیوں سے اچھّی طرح واقف تھی لیکن بالآخر میں نے یہ جان لیا کہ میں جیسی بھی ہوں میں خود سے پیار کر سکتی ہوں اور اِس کے لئے ضروری نہیں کہ میں اپنے ہر کام کو پسند کروں۔ ہم سب خُدا کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں تاکہ ہمارے برتاؤ میں مثبت رویہ پیدا ہو اور اِس کے لئے ہمیں خود کو رد کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی اپنی خامیوں کے باعث خود کو ناکام شخص سمجھنا چاہیے۔

ہمارے اِرد گرد شاید لوگ ہمارے اندر فوری طور پر غلطیاں اور کمزوریاں تلاش کر لیں گے، اور ہمارا دشمن ابلیس، تو ضرور ہی ہمیں یاد دلائے گا۔ لیکن ہمیں ہر سُنی ہوئی بات پر یقین کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور جس بات پر ہم یقین کرتے ہیں ہمیں اُس کا خُدا کے کلام کے ساتھ موازنہ کرنا چاہیے یہ دیکھنے کے لئے کہ آیا وہ درست ہے یا نہیں۔ خُدا نے ہم سب کو تخلیق کیا ہے اور زبور 139 کے مطابق، اس نے بہت محتاط طریقہ سے ایسا کیا ہے۔ خُدا غلطیاں نہیں کرتا، اور اس کے سب کام شاندار ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ شاندار ہیں!

آئیں ہم زبور نویس داؤد پر ایک نگاہ ڈالیں جس نے ایک بڑے قدآور جاتی جولیت کا سامنا کرنے سے پہلے اپنے بارے میں ایک سچائی کو جان لیا تھا

اپنی بناوٹ کو جیسی وہ ہے قبول کریں۔

 پہلا سموئیل 17 باب میں ہمیں ایک کہانی بتائی گئی ہے کہ اسرائیلی فوجوں نے کس طرح ایک قدآور شخص جاتی جولیت کا سامنا کیا جو فلستیوں کا بڑا سورما تھا۔ جب جولیت لڑنے کے لئے باہر نکلا تو اسرائیلی سپاہی خوف زدہ ہو گئے اور نوجوان داؤد واحد شخص تھا جو لڑنے کے لئے تیار تھا (1 سموئیل 17 : 1 – 11، 16)۔

ساؤل بادشاہ سے داؤد کے لئے لڑائی پر جانے کے لئے اجازت حاصل کرنے کی غرض سے دلائل دینے کی ضرورت پڑی تاکہ اسے قائل  کیا جا سکے اور آخر کا وہ اسے اس سورما سے لڑنے کے لئے بھیجنے کو تیار ہو گیا، اس نے داؤد کو اپنی زرہ بکتر پہنائی اور اس کے سَر پر کانسی کا ہیلمٹ پہنایا۔ لیکن داؤد کو فوراً اندازہ ہو گیا کہ وہ کسی کا جنگی لباس پہن کر جنگ کے لئے نہیں جا سکتا کیونکہ وہ اس کا عادی نہیں تھا۔ یہاں تک کہ وہ اس کو پہن کر چل بھی نہیں سکتا تھا۔ اس نے ساؤل کا جنگی لباس اُتار دیا اور اپنے چرواہے کا عصا اُٹھایا اور پانچ چکنے پتھر اور فلاخن ساتھ لیا۔ وہ ان چیزوں سے لیس تھا جن سے وہ واقف تھا، اور اُس نے اُس سورما کا سامنا کیا ( 1 سموئیل 17 : 37 – 40)۔

جب جولیت نے داؤد کا مذاق اُڑایا، اور اُسے ڈرانے کی کوشش کی، داؤد نے یہ جانتے ہوئے کہ خُدا اُسے سورما پر فتح بخشے گا جواب دیا (1 سموئیل 17 : 41 – 45)۔ نوجوان داؤد نے وہ کیا جو کوئی بھی سوچ نہیں سکتا تھا۔ وہ فلاخن جس پر جولیت ہنس رہا تھا سے ایک پتھر نکلا اور اسے ہلاک کر دیا اور اسرائیلیوں نے اس دن فلستیوں کو شکست دے دی (1 سموئیل 17 : 46 – 51)۔

داؤد نے جولیت کو شکست دی لیکن ایسا کرنے کے لئے اسے اپنے آپ کو پہچاننے کی ضرورت تھی۔ اس نے ساؤل کے جنگی لباس میں لڑنے کی کوشش کی، وہ ان ہتھیاروں سے جن سے وہ واقف نہیں تھا استعمال نہیں کر سکتا تھا۔ دوسروں کی نظر میں اس کا طریقہ کار عجیب تھا لیکن وہ کارآمد تھا کیونکہ خُدا اس کے ساتھ تھا۔ آپ کے اور میرے لئے بھی ایسا ہی ہے۔

ہمیشہ یہ یاد رکھیں کہ آپ اپنے جولیت کو ساؤل کے جنگی لباس کے ساتھ شکست نہیں دے سکتے۔ آپ کسی دوسرے کی صلاحیتوں، شخصیت اور وسائل سے کامیابی حاصل نہیں کر سکتے ـــ آپ کو اپنی ذات کو پہچاننے کی ضرورت ہے۔ زندگی میں ہر قسم کی کامیابی کے لئے خود کو پہچاننا بہت اہم ہے۔ دوسرے شاید آپ کی انفرادیت کو سمجھ نہ سکیں لیکن خُدا جانتا ہے اور یہ کافی ہے۔

ہمارے پاس دُنیا کو دینے کے لئے بہت کچھ ہے، اور اَب وقت ہے کہ ہم ایسا کرنا شروع کر دیں۔ آج ایک نیا دِن ہے، آپ کے لئے نیا آغاز ہے، اگر آپ اسے گلے لگانے کے لئے تیار ہیں۔ آپ خُدا کے پیارے ہیں اور وہ آپ کے لئے عظیم منصوبے رکھتا ہے پس اپنی کمریں کَس لیں اور سچائی کی طرف اپنے سفر کو شروع کر دیں۔

Facebook icon Twitter icon Instagram icon Pinterest icon Google+ icon YouTube icon LinkedIn icon Contact icon