اُسی طرح میرا کلام جو میرے منہ سے نکلتا ہے ہو گا۔ وہ بے انجام (بے اَثر، بے کار) میرے پاس واپس نہ آئے گا بلکہ جو کچھ میری خواہش ہوگی وہ اُسے پورا کرے گا اور اُس کام میں جس کے لئے میں نے اُسے بھیجا مُوثر ہوگا۔ یسعیاہ 55 :11
یسعیاہ ہمیں تعلیم دیتا ہے کہ وہ کلام جو خُدا کے منہ (میرا اِیمان ہے کہ جب ہم کلام سناتے ہیں تو یہ ہمارے منہ بھی ہوسکتے ہیں) سے نکلتا ہے، اُس وقت تک واپس نہیں لوٹتا جب تک وہ سب کچھ حاصل نہ کر لے جس کے لئے وہ بھیجا گیا ہے۔ خُدا کا کلام ایک بیج کی مانند ہے اور جب ہم اُسے زمین میں بوتے ہیں تو ہمیں اچھّا پھل ملتا ہے (دیکھیں یسعیاہ 55 : 10 ۔ 11)۔
ہم زمین پر خُدا کے نمائندے ہیں، اُس کا منہ ہیں اور پولس رسول کی طرف سے ہمیں ہدایت دی گئی ہے کہ ہم اُس کی مانند بنیں (دیکھیں افسیوں 5 : 1)۔ اُس کے نمائندے کی حیثیت سے ہمیں اُس کے کلام کو اسی طرح سے پیش کرنا ہے جس طرح سے وہ خود دلیری سے کرتا ہے، اختیار کے ساتھ، اور اس ایمان کے ساتھ کہ اس کے اندر آپ کی زندگی اور حالات کو تبدیل کرنے کی قدرت پنہاں ہے۔
آج کا قوّی خیال: جب میں خُدا کے کلام کو پیش کرتا/کرتی ہوں تو اِس کے اندر خُدا کی آزوؤں اور مقاصد کو پورا کرنے کی قدرت ہے۔