اَے خُدا، تو کیا چاہتا ہے؟

…پس کون تیار ہے کہ اپنی خوشی سے اپنے آپ کو آج خُداوند کے لئے مخصوص کرے؟  (۱ تواریخ ۲۹ : ۵)

مسیحی لوگ دشمن کے لئے اُس وقت خطرہ بن جاتے ہیں جب وہ ایسی وقف شدہ زندگی بسر کرنے لگتے ہیں جو پورے طور پر خُدا کے لئےمخصوص اور مہیا ہو۔ اِس قسم کی عقیدت کا مطلب ہے کہ ہم پورے طور پر اپنے آپ کو اور اپنا سب کچھ اُس کے سپرد کردیتے ہیں؛ ہم کچھ بھی اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔ جب ہم اپنے آپ کو مخصوص کرتے ہیں ہم خُدا کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ ہم سے کلام کرے اور ہماری زندگی کے ہر حصّہ میں اپنی مرضی کے مطابق کام کرے۔

اگر ہم واقعی خدا کے استعمال کے لئے اپنے آپ کو الگ کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں خود سے یہ پوچھنا ہے کہ کیا ہماری زندگی کے کچھ حصّے ایسے ہیں جو خُدا سے پوشیدہ ہیں۔ ہمارے دِل میں کون سے پوشیدہ خانے ہیں؟ کون سے ایسی باتیں ہیں جن کے بارے  میں ہم کہتے ہیں کہ،’’اَے خدا توسب کچھ لے سکتا ہے لیکن یہ نہیں‘‘، یا ’’اَےخُدا میں اِس کام کے لئے تیار نہیں ہوں!‘‘ یا ’’اَے خُدا اس تعلق کو ابھی مت چھیڑنا،‘‘ یا ’’اَے خُداوند مجھے اس کام کو چھوڑنے کے لئے منع نہ کرنا؟‘‘  مکمل سُپردگی کا مطلب یہ کہنا نہیں ہے کہ، ’’اَے خُداوند میں ہر روز کلام مقّدس کا مطالعہ کروں گا/گی؛ میں آیات یاد کروں گا/گی اور تیرے کلام کو اپنے دِل میں رکھ لوں گا/گی اوردن کے کئی گھنٹے دُعا میں گزاروں گا/گی، لیکن مہربانی سے مجھ سے یہ نہ کہیں کہ میں اپنی فلاں پسندیدہ عادت کو چھوڑ دوں!‘‘ ایسا نہیں ہے بلکہ پورے دل سے پوری سُپردگی کا مطلب ہے کہ ہم یہ اقرار کریں : ’’میں اپنے آپ کو پورے طور پر تیرے سُپرد کرتا/کرتی ہوں، اَے خُداوند مجھ سے بول اور مجھے بتا کہ تو کیا چاہتا ہے۔‘‘

میرا کہنے کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ ہم یہ سوچیں کہ خُدا ہم سے ہر وہ چیز لے لے جس سے ہمیں خوشی ملتی ہے، کیونکہ وہ ایسا نہیں کرے گا۔ بلکہ میرا کہنے کا یہ مطلب ہے کہ ہماری ہر چیز اس کی ہونی چاہیے۔ ہمارے لئے کیا اچھّا ہے اور کیا بُرا اس کا فیصلہ اُسے کرنا چاہیے ؛ ہمارا کام ہے کہ اُس پر مکمل طور پر بھروسہ کریں۔


آج آپ کے لئے خُدا کا کلام: خُدا کے لئے پورے طورپر حاضر رہیں اور اس سے کچھ بھی نہ چھپائیں۔

Facebook icon Twitter icon Instagram icon Pinterest icon Google+ icon YouTube icon LinkedIn icon Contact icon