دِل کی تدبیریں انسان سے ہیں لیکن زبان کا[حکمت بھرا] جواب خُداوند کی طرف سے ہے۔ (امثال ۱۶ : ۱)
بعض اوقات خدا ہم سے ہمارے ہی منہ سے کلام کرتا ہے۔ میں نے یہ اس وقت سیکھا جب مجھے ایک بڑا فیصلہ کرنے کے دوران الہیٰ جواب کی ضرورت تھی، لیکن میں خدا کی رہنمائی حاصل نہیں کرپارہی تھی۔ میری سوچوں نے مجھے اُلجھن میں ڈال رکھا تھا اور میں آگے نہیں بڑھ پا رہی تھی پھر ایک دن میں اپنی دوست کے ساتھ چہل قدمی کے لئے گئی۔
میں نے اپنی دوست سے اس موضوع پر چہل قدمی کے دوران ایک گھنٹے تک گفتگو کی اس دوران ہم تازہ ہوا اور ایک دوسرے کی رفاقت سے لطف اندوزبھی ہوتے رہے۔ ہم نے اس مسئلے کے کئی حل اور ان کے نتائج پر غور کیا۔ ہم نے مختلف امکانات اور ان کے فوائد اور نقصانات پر بھی غور کیا۔ بات چیت کے دوران اچانک اس مسئلے کا ایک بڑا مناسب سا حل میرےدل میں پیداہوا اور میری زبان سے نکلا اور میں نے جان لیا کہ یہ خُداوند کی طرف سے ہے۔ یہ میرے دماغ کی اختراج نہیں تھی بلکہ یہ میری روح ، میرے اندر سے نکلا۔
جب میں نے کچھ کرنے کا فیصلہ کرلیا توایسا کرنا کسی فطری عمل کا نتیجہ نہیں تھا۔ میں اس لئے بھی جدوجہد اورکشمکش کا شکار تھی کیونکہ میں چاہتی تھی کہ اس مسئلہ کا حل میری مرضی کے مطابق ہو۔ خدا کی آواز میں امتیاز کرنا مشکل تھا کیونکہ میرا ذہن پہلے ہی اس کے منصوبے کے برخلاف ہوچکا تھا۔ ضدی دماغ اطمینان کا سب سے بڑا دشمن ہے اور ہماری خدا کی آواز سننے کی صلاحیت میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔ ہمیں اپنی خواہشات کو ایک طرف رکھنے کی ضرورت ہے ورنہ ہم اُس کی آوازصاف صاف نہیں سُن پائیں گے۔ وہ جانتا ہے کہ ہمارے لئے کیا بہتر ہے اس لئے ہمیں ہر قسم کے حالات میں اُس کی مرضی کی فرمانبرداری کرنی چاہیے۔
خدا ہم سے وعدہ کرتا ہے کہ اگر ہم اس کی تلاش کریں گے تو وہ ہمارے منہ میں ایسی باتیں ڈالے گا جو ہمیں کرنی چاہیے (دیکھیں زبور ۸۱ : ۱۰)۔ اس نے میرے لئے یہی کیا اور وہ آپ کے لئے بھی ایسا ہی کرے گا اگر آپ اس کی تلاش کریں گےاور اس کے منصوبوں کے سامنے اپنا سر جھکا دیں گے۔
آج آپ کے لئے خُدا کا کلام: خُدا سے دُعا کریں کہ وہ آپ کے منہ کو ایسی باتوں سے بھردے جو آپ کوکہنی چاہیں۔