چنانچہ ہم تصورات اور ہر ایک اونچی چیز کو جو خدا کی پہچان کے برخلاف سر اٹھائے ہوئے ہے ڈھا دیتے ہیں اور ہر ایک خیال کو قید کر کے مسیح (مسیح ، جس کو مسح کیا گیا)کا فرمانبردار بنا دیتے ہیں۔ ۲ کرنتیھوں ۱۰: ۵
مسیحی ہونے کی حیثیت سے ہمیں اپنے ذہن میں آنے والے ہر خیال کو قبول نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ہر خیال کو کلام کے پیمانے پر تولنا چاہیے، جیسا کہ مندرجہ بالاآیت میں ہمیں ہدایت کی گئی ہے۔
یہاں ایک عملی مثال پیش ہے:اگر کوئی آپ کو تکلیف پہنچاتا ہے، تواسی وقت فیصلہ کریں کہ آپ آنے والے دنوں میں ان سے ناراض ہو کر تعلقات ختم نہیں کریں گے۔ ورنہ ابلیس کو کڑواہٹ کے بیج بونے کا موقع مل جائے گا۔
اس کے بجائے آپ منفی سوچ کو رد کردیں تاکہ آپ کا اطمینان اور خوشی جاتی نہ رہے۔
خدا کی طرف رجوع لائیں اور کہیں۔’’اَے باپ، مجھے تیری قوت کی ضرورت ہے۔میں ایمان سے تیرے فضل کو قبول کرتا/کرتی ہوں تاکہ جنھوں نے میرے ساتھ ناروا سلوک رکھا یا مجھے نقصان پہنچایا ہے ان کو معاف کر سکوں۔ میں دعا کرتا/کرتی ہوں کہ ان کو برکت دے اور میری مدد فرما کہ میں زندگی میں آگے بڑھ سکوں۔ یسوع کے نام میں۔ آمین۔‘‘
جب خدا کے کلام سے ہمارے ذہن تازہ ہو جائیں گے تو ہماری سوچ بدل کرخدا کے کلام کے مطابق ہو جائے گی۔ پھر ہر دن خدا کا خوف ہماری سوچوں کے اِرد گرد پہرہ بٹھا دے گا۔ یہ حدیں نہ صرف دشمن کے وار کو روک دیں گی بلکہ آپ کو زیادہ خوش اور دینداری کی زندگی بسر کرنے میں مدد گار ثابت ہوں گی۔
یہ دُعا کریں:
اَے خُداوند،میں صرف ان درست خیالات کو قبول کروں جو تیری سوچ اور کلام کے ساتھ ملتی ہوں۔ جب دشمن میرے راستے میں بری سوچوں کو حائل کرے تو مجھے آگاہ کرنا تاکہ میں ان کو قید کر کے تیری فرمانبرداری میں دے دوں اور تیرے کلام کے مطابق عمل کرسکوں ۔