…کیونکہ جو دِل میں بھرا (لبریز ہے، کثیر تعداد میں ) ہے وہی منہ پر آتا ہے۔ (متی ۱۲ : ۳۴)
آج کی آیت مجھے ایک خاتون کی یاد دلاتی ہے جو میری ایک کانفرنس میں آئی تھی اور اس نے مجھے بتایا کہ وہ کبھی بھی اپنے مسائل کے بارے میں سوچنا اور بولنا بند نہیں کرتی، اگرچہ اس کو سیکھایا گیا تھا کہ اُسے اپنے مسائل پرغورنہیں کرنا چاہیے۔ وہ جانتی تھی کہ اسے منفی باتوں پر غورکرنا بند کردیناچاہیے لیکن اُسے ایسا لگتا تھا کہ یہ اُس کے لئے ممکن نہیں ہے۔
اس خاتون کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا تھا اوروہ ایسی بہت سے خواتین سے ملی جواس درد میں سے گزری تھیں۔ جب وہ بات چیت کررہی تھیں اُس نے محسوس کیا کہ خُدا نے جس طرح اُس سے کلام کیا ان سب سے بھی اُسی طرح کلام کیا اور انہوں نے کلام کی باتوں پرعمل کیا ہے جب کہ اُس نے نافرمانی کی ہے۔ انہوں نے خُدا کے کلام کے وسیلہ سے اپنی عقلوں کو نیا بنا لیا ہے جب کہ وہ اپنے مسائل میں دھنستی جارہی ہے کیونکہ اس نے ان کو اپنے دل سے نکالنے سے انکار کردیا ہے۔
جب ہم کسی بات کو اپنے دِل میں بٹھا لیتے ہیں تو بالآخر وہ ہمارے ہونٹوں پرآ ہی جاتی ہے۔ کیونکہ اس خاتون نے خُدا کی فرمانبرداری کرنے اور اپنے مسائل کے تعلق سے بات کرنے اورسوچنے سے انکار نہیں کیا تھا اسی لئے وہ ایسی قید میں تھی جس سے وہ آزاد نہیں ہوسکتی تھی۔ جب ہمیں کسی چیز کی ضرورت ہوتی ہے تو ہم اس کے بارے سوچتے اوربات کرتے ہیں۔ وہ بھی خدا کو حاصل کرنے کے لئے اپنی سوچوں اورباتوں کو بدل سکتی تھی لیکن اُس نے اپنی سوچوں اور باتوں میں اُنہی چیزوں پنپنے دیا جن سے وہ چھٹکارا پانا چاہتی تھی۔
میں آپ کی حوصلہ افزائی کرنا چاہتی ہوں کہ خُدا کو ڈھونڈیں اور ایسا کرنے کے لئے خُدا کے کلام کا اِقرار کریں اور پاک روح سے کہیں کہ وہ آپ کے دِل اور زبان کو ان باتوں سے معمور کردے جن پروہ چاہتا ہے کہ آپ غورکریں۔
آج آپ کے لئے خُدا کا کلام: آج ایسی باتوں پر غور کریں جو آپ کوخوش کرتی ہیں نہ کہ اُن باتوں پر جن سے آپ اُداس ہوجاتے ہیں۔