سارے دِل سے خُداوند پر توکُّل کر اور اپنے فہم پر تکیہ نہ کر۔ اپنی سب راہوں میں اُس کو پہچان اور وہی تیری راہنمائی کرے گا۔ امثال 3 : 5 – 6
وہ لوگ جو حالات کے بارے میں بہت زیادہ سوچنے کے عادی ہوتے ہیں اُن کے لئے اِیمان رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ جب ہم کسی معاملہ کے بارے میں بہت زیادہ سوچتے ہیں اور پریشان رہتے اور جنونی ہوکر اُس مسئلہ کو حل کرنے یا کسی موقع سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتے ہیں تو عموماً ہم خُدا پرنہیں بلکہ خود پر بھروسہ کرتے ہیں۔
مجھے بھی ہر معاملہ کے بارے میں بہت زیادہ سوچنے کی عادت تھی اور میں اِس میں اوّل نمبر پر تھی، میرے لئے بہت ضروری تھا کہ میں ہر مسئلہ کا حل تلاش کروں۔ خوش ہونے کے لئے میرے لئے ضروری تھا کہ میں ہر بات کی پہلے سے منصوبہ بندی کروں۔ میں ہمیشہ یہ سوال کرتی رہتی تھی ” کیوں اَے خُدا کیوں؟ کب اَے خُدا کب؟” پھر ایک دِن خُدا نے مجھ سے یہ کلام کیا کہ ” جب تک تم وجوہات کی تلاش میں زندگی بسرکرتی رہو گی اس وقت تک تمہیں امتیازکرنے کی حکمت نہیں ملے گی۔”
امتیاز کرنے کی حکمت دِل میں پیدا ہوتی ہے اور پھر یہ خیالات کو روشن کردیتی ہے۔ جب تک میں اپنے خیالات میں پاک رُوح سے جُدا ہوکراور خُدا کے کلام کے برخلاف دلائل بازی میں مصروف رہتی اُس وقت تک خُداوند یسوع مسیح مجھ میں کام نہیں کرسکتا تھا۔ وہ چاہتا ہے کہ ہم سوچیں لیکن یہ سب کچھ خُدا کےکلام کے مطابق ہو اور سارا کنٹرول اس کے پاس ہی رہے۔
میں نے یہ جانا ہے کہ جب میں اپنے ذہن میں کسی معاملہ کے بارے میں بہت سوچ بچار کرتی ہوں تو میں مضطرب ہوجاتی ہوں اور یہ میرے لئے ایک نشان ہوتا ہے کہ میں اس معاملہ کو چھوڑدوں اور خُدا کا انتظار کروں کہ وہ مجھ پرایسی باتیں ظاہر کرے جو صرف وہی مجھ پر ظاہر کرسکتا ہے۔
اگر ہم اپنی زندگی کے ہر معاملہ کی وجوہات کے بارے میں ہی سوچتے رہیں گے تو ہم ذہنی اور دلی اطمینان سے خالی رہیں گے۔