
کہ تم اپنے اگلے چال چلن کی اُس پُرانی انسانیت (اپنی پُرانی ہستی کو جو نئے سرے سے پیدا نہیں ہوئی اُتار دو اور اُس کو ظائل کردو) کو اُتار ڈالو جو فریب کی شہوتوں کے سبب سے خراب ہوتی جاتی ہے۔ اور اپنی عقل کی روحانی حالت (شگفتہ ذہنی اور روحانی رویہ) میں نئے بنتے جاؤ۔ اور نئی انسانیت (نئے سرے سے تخلیق شدہ)کو پہنو جو خُدا کے مطابق (خُدا کی مانند) سچائی کی راست بازی اور پاکیزگی میں پیدا کی گئی ہے۔ افسیوں 4 : 22 ۔ 24
خُدا کے کام کرنے کے طریقے کےمطابق پہلے سوچ درست ہونی چاہیے اور پھر درست عمل پیدا ہوتا ہے اور جب اس اصول کو سیکھانے کے لئے میں تعلیم دیتی ہوں تو مجھے افسیوں 4 : 22 ۔ 24 کا حوالہ استعمال کرنا پسند ہے۔ 22 آیت میں ہمیں بنیادی طور پر یہ بتایا گیا ہے کہ ہم نامناسب کام کرنا چھوڑ دیں اور 24 آیت میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ ہم مناسب عمل اختیار کریں۔ اور 23 آیت میرے مطابق ایسی آیت ہے جو ان دونوں آیات کے درمیان ‘‘پُل’’ کا کام کرتی ہے۔ اس میں ہمیں بتایا گیا ہے کہ 22 آیت (نامناسب عمل) سے 24 (مناسب عمل) تک کیسے پہنچیں۔ ‘‘اور اپنی عقل (شگفتہ ذہنی اور روحانی رویہ)کی روحانی حالت میں نئے بنتے جاؤ۔’’ جب تک ہم اپنی سوچ اور مرضی کو خُدا کے کلام کے مطابق ڈھال نہیں لیتے اس وقت تک غلط رویے کو درست رویے میں بدلنا ممکن نہیں ہے۔
سوچیں کہ آپ خدا کی مدد سے کس طرح بدل سکتے ہیں اور جلد ہی آپ دیکھ سکیں گے کہ آپ کی زندگی میں تبدیلیاں پیدا ہو جائیں گی۔
آج کا قوّی خیال:
میں مسلسل خدا کے کلام کے وسیلہ سے اپنی سوچ کو تبدیل کرسکتا/سکتی ہوں۔