(اگر کوئی ایسا ہے) وہ شخص دو دِلا ہے (ہچکچاتا ہے، شک کرتا ہے اور مذبذب ہے ) اور (وہ) اپنی سب باتوں میں (جو وہ سوچتا ہے، محسوس کرتا ہے اور جن کے بارے میں فیصلہ کرتا ہے) بے قیام۔
یعقوب 1 : 8
اگر ہم دُعا میں خُدا کے سامنے اپنی پریشانیاں رکھنے کے باوجود اُن کے بارے میں فکر مند ہوتے رہیں گے تو ہم دراصل اپنے اِیمان کا انکار کرتے ہیں۔ دٗعا ایک مثبت قوّت ہے اور فکر ایک منفی قوّت ہے۔ اگر ہم دونوں کو جمع کردیں تو ہمیں صفر حاصل ہوگا۔ میں آپ کے بارے میں تو نہیں جانتی لیکن میں صفر قوّت نہیں چاہتی ، پس خُدا کی مدد سے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ دُعا اور فکر کو آپس میں نہ ملاؤں۔
اگرچہ ہم موثر اور زورآور زندگی بسر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اس کے باوجود بہت سے لوگ صفر قوّت میں کام کرتے ہیں کیونکہ وہ ہمیشہ منفی اور مثبت کو ملا دیتے ہیں۔ تھوڑی دیر تک تو وہ مثبت اِقرار کرتے ہیں اور پھر تھوڑی دیر تک مفنی اِقرار کرتے ہیں۔ وہ تھوڑی دیر تک دُعا کرتے ہیں اور پھر تھوڑی دیر کے لئے فکر کرلیتے ہیں۔ وہ تھوڑی دیر تک بھروسہ رکھتے ہیں اور پھر تھوڑی دیر تک شک کرتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں وہ ایک ہی جگہ آگے پیچھے ہوتے رہتے ہیں اور کبھی بھی آگے نہیں بڑھتے ہیں۔
آئیں ہم برائی کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا چھوڑ دیں ۔۔۔۔ اور اچھّائی کو بڑھا چڑھا کر پیش کریں! آئیں ہم خُدا کے اُن کاموں کو جو وہ کررہا ہے بُلند کریں، ایسا کرنے کے لئے اُن کے بارے میں بات کریں، اپنے خیالات میں ، اپنے رویے میں، اپنے ظاہر میں، اپنے الفاظ میں، اور اپنے اعمال میں اُن کے بارے میں مثبت رویہ اپنائیں۔
کیوں نہ ہم خُدا پر بھروسہ کرتے ہوئے مثبت رہنے کا فیصلہ کریں اورفکر سے اِنکار کرنے کا۔
ہر قسم کے حالات میں مثبت رہنے کی مشق کریں اگرچہ جو کچھ ہو رہا ہے ظاہراً وہ زیادہ اچھّا نہیں ہے تو بھی خُدا سے توقع کریں کہ وہ اُس میں سے بھلائی پیدا کرے گا۔