وَیسا ہی [عاجز] مِزاج رکھّو جَیسا مسِیح یِسُوعؔ کا بھی تھا [ عاجزی کرنے میں وہ آپ کا نمونہ ہے۔] فِلِپّیوں 5:2
بحیثیت اِنسان ہم سب کو خود غرضی اور ناشُکری کے ساتھ مقابلہ کرنا پڑتا ہے۔ ہم کسی چیز کے لیے خُدا سے دُعا کرتے ہیں اور اِیمان رکھتے ہیں کہ وہ ہمیں مل جائے گی اور جب ہمیں وہ چیز مل جاتی ہے تو ہم اُس کے لیے بہت شُکر گزار اور احسان مند ہوتے ہیں۔ لیکن جلد ہی ہمارے اندر سے شُکر گزاری اور احسان مندی جاتی رہتی ہے اور ہم یہ سوچنے لگتے ہیں کہ ہم ان چیزوں کے حقدار ہیں۔
اگر ہم محتاط نہیں ہوں گے تو ہم خُداوند سے مطالبات کرنے والے بن جائیں گے اور یہ بات ہمارے رویے میں شامل ہو جائے گی۔ اور جب خُداوند ہمیں وہ سب کچھ نہیں دے گا جس کے لئے ہم خود کو حقدار سمجھتے ہیں تو ہم پریشان اورناراض ہوجائیں گے۔ اس کے فرزندوں کی حیثیت سے ہمارے پاس وراثت ہے لیکن اسے حاصل کرنے کے لیے فروتنی کا رویہ اپنانا ضروری ہے۔ فروتنی کا رویہ خُدا کو خوش کرتا ہے اور اس کے ذریعہ سے ہم ہر نعمت کے لیے جو ہمیں ملتی ہے اپنے دِلوں میں اُس کے کے شُکر گزار ہوں گے۔
شُکرگزاری کی دُعا
اَے باپ، مَیں اپنی زندگی میں تیرے کام کے لیے بہت شُکر گزار ہوں۔ براہِ کرم میری مدد کر تاکہ میں فروتنی کا رویہ اپنا سکوں اور کبھی بھی تیری بھلائی کو حاصل کرنے کے لئے ضد نہ کروں۔ تیرا شُکر ہے کہ تُو نے میری زندگی پر اپنا احسان کیا ہے اس لیے نہیں کہ مَیں اس کا حقدار ہوں بلکہ صرف اس لیے کہ تُو مجھ سے مُحبّت کرتا ہے اور تُو مجھے برکت دینا چاہتا ہے۔