مگر جو عیش و عشرت میں پڑ گئی ہے [جس نے اپنے آپ کو عیاشی اورذاتی خواہشات کے سُپرد کردیا ہے] وہ [اگرچہ ابھی] جیتے جی مر گئی ہے۔ (۱ تیمتھیس ۵ : ۶)
ایک بار میں نے ایک انگھوٹی دیکھی جو مجھے بہت پسند تھی اور میں اُسے خریدنے کی استداد بھی رکھتی تھی کیونکہ میں نے کچھ رقم بچا کر رکھی تھی۔ تو بھی میں نے اُسے فوراً خریدنے کی بجائے اس تعلق سے دُعا کرنے کا ارادہ کیا تاکہ اپنے محرکات کو جانچ سکوں اور پھر خُدا سے سوال کیا کہ ’’اَے خُدا کیا میں وہ انگوٹھی خرید لوں؟ تو جانتا ہے کہ میں اِس رقم سے وہی کروں گی جوتیری مرضی ہے لیکن اگر یہ مناسب ہے تو میں وہ انگوٹھی خریدنا چاہتی ہوں۔‘‘
کوئی ایسی وجہ میرے دِل میں نہیں آئی کہ میں وہ انگوٹھی نہ خریدوں اِس لئے میں نے وہ انگوٹھی خرید لی۔
یہ اس قصے کا اچھّا اختتام ہوسکتا تھا لیکن ہوا کچھ اور ۔۔۔۔۔۔ وہاں ایک کنگن بھی تھا۔ دکاندارنے مجھے بتایا کہ ’’اِس کنگن پر کل تک سیل لگی ہوئی ہے۔ اوریہ آپ پربہت جچ بھی رہا ہے۔‘‘
میں کچھ ہچکچاہٹ محسوس کررہی تھی لیکن میں نے ڈیو سے پوچھنے کا فیصلہ کیا یہ سوچتے ہوئے کہ شاید وہ مجھے کنگن دِلا دیں گے۔ ڈیو نے اُسے دیکھا۔ اُنہیں بھی وہ اچھّا لگا اوراُنہوں نے مجھے کہا ’’اگر تمہیں یہ پسند ہے تو تم اسے خرید لو۔‘‘ میں اپنے دِل میں جانتی تھی کہ مجھے وہ کنگن خریدنا نہیں چاہیے۔ اسے خریدنا کوئی بُری بات نہیں تھی لیکن اس وقت اس سے بھی زیادہ ضروری یہ تھا کہ میں سیکھوں کہ جو چیز مجھے بہت پسند ہے لیکن میری ضرورت کی نہیں ہے مجھے اُسے خریدنا نہیں چاہیے۔
اس وقت میں نے محسوس کیا کہ اگر مجھے اس کی ضرورت ہوگی تو شاید خُدا بعد میں مجھے اسے خریدنے کی اجازت دے دے گا۔ انگوٹھی کےساتھ ہی مجھے وہ کنگن خریدنا مناسب نہیں لگا۔ آج جب میں اس واقعہ پر غورکرتی ہوں تو مجھے احساس ہوتا ہے کہ اس وقت اپنے نفس پر قابو پانے سے جو اطمینان مجھے حاصل ہوا شاید وہ اپنی خواہش کو پورا کرنے پر نہ ہوتا۔
اگر ہم حقیقی خوشی کے طالب ہیں تو ہمیں خُدا کی آواز کو سُننا ہے۔ وہ ہمیں بتا دے گا کہ کون سی چیز ہمارے لئے درست ہے اور کون سی نہیں۔
آج آپ کے لئے خُدا کا کلام: خُدا کو موقع دیں کہ وہ آپ کی زندگی کے ہر چھوٹے بڑے معاملہ میں آپ کی راھنمائی کرے۔