اُمید کے بر آنے میں دیر دِل کو بیمارکرتی ہے پرآرزو کا پورا ہونا زندگی کا درخت ہے۔ امثال ۱۳: ۱۲
میں اُمید کی تعریف یوں کرتی ہوں ’’اچھّی باتوں کا خوش کن اشتیاق‘‘۔ جب ہم اپنی زندگی میں خدا کی بھلائی کے مشتاق ہوتے ہیں تو اس سے ہمارے لئے بڑی خوشی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ تو کیا آپ بڑی بے چینی سے اپنے لئے کسی بھلائی کے کام کے منتظر ہیں؟
جب تک ہم زندہ ہیں ہم کہیں نہ کہیں پہنچنا چاہتے ہیں۔ خدا نے ہمیں بامقصد رویا رکھنے والوں کی مانند تخلیق کیا ہے۔ رویا کے بغیر ہم بیزاراورنااُمید ہو جاتے ہیں۔ اِمثال ۱۳ : ۱۲ کے مطابق جب اُمید کے بر آنے میں دیر ہوتی ہے تو یہ دل کو بیمارکرتی ہے پر آرزو کا پورا ہونا زندگی کا درخت ہے۔
خدا چاہتا ہے کہ ہم اُمید سے بھری زندگی بسر کریں تاکہ ہم خوش رہیں۔
اگر آپ اُمید نہیں رکھیں گے تو آپ خوش نہیں رہ سکتے۔ جتنا زیادہ آپ خدا پر اُمید لگائیں گے اتنا ہی زیادہ آپ خوش ہوں گے۔ اُمید کی وجہ سے ہمارے اندر یہ بھروسہ پیدا ہوتا ہےکہ سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔۔اُمید مثبت رویہ ہے! زندگی سے لطف اندوزہونےکےلیے آپ کا رویہ اچّھا اورپُراُمید ہونا چاہیے۔ خدا نیک ہے اور وہ ہمارے ساتھ نیکی کرنا چاہتا ہے،پس آج ہی اُس کی اُمید سے اپنے آپ کو معمور کرلیں اور بھلائی کے لئے خوشی سے مشتاق ہوں۔
یہ دُعا کریں:
اَے خدا آج میں فیصلہ کرتا/کرتی ہوں کہ اپنی زندگی میں خوشی سے تیری بھلائی کا/کی مشتاق رہوں گا/گی جس سے میری خوشی میں اضافہ ہوگا۔اَے خُداوند میں تجھ پر اپنی اُمید لگاتا/لگاتی ہوں۔